تحقیق و تحریر : حسین علی ہری
تاریخ کا مطالعہ ایک ذہنی مشقت ہے اور اس میں محنت زیادہ لگتی ہے ۔تاریخی حقایق کو سمجھنے کے لیے تاریخ کو مختلف زاویہ سے پرکھنا پڑتا ہے اورگہرائی سے مطالعہ بھی ضروری ہے۔
جس عنوان کا ہم نے انتخاب کیا ہے اس پہ آج تک کسی نے لکھنے کی کوشش نہیں کہ اگر لکھیں بھی ہیں تو وہ عدم دستیابی کے شکار ہیں۔اس لیے ہماری لیے اولین کوشش ہے جس کو ہم جدید
میڈیا سروس کے وساطت سے آپ تک پہنچانے کی کوشش کر رہیں ہیں۔امید ہے کی آپ حضرات ہماری اس اولین کاوش کو سراہیں گے۔
ضروری نوٹ: ہمارے قارئین جو اس پوسٹ کا انگلش میں مطالعہ کرنا چاہتے ہیں گزارش ہے کہ وہ اس لنک پر کلک کریں ۔
ہم نے بھی اپنی ذاتی مطالعہ،دلچسپی اور جدوجہد سے کچھ تاریخی کتب جو دستیاب تھیں مطالعہ کر کے ان حقائق سے اتفاق کیا وہ مواد آپ کے ساتھ شیئر کر نا چاہا۔ہمیں یہ بھی امید ہے کہ آپ ان تاریخی گوشوں کو ہمارے ساتھ مطالعہ کرنے سے لطف اندوز ہونگے اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان کمی بیشیوں کی نشاندہی بھی کریں گے تاکہ ہم اپنی مطالعہ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ آپ کی نیک مشوروں سے بھی استفادہ حاصل کر سکیں ۔
معزز قارئین۔ہنزہ کے” میر شاہ غضنفر خان کے دور حکومت (1824 تا 1864)”(ح1)کے واقعات کا اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے عہد ایک دلچسپ واقعات اور تغیرات سے پھر پور ہے۔ان کے دور میں ہنزہ کی ریاست میں کافی وسعت ملی جن کا اس مختصر پوسٹ میں ذکر کرنا ممکن نہیں البتہ تاریخ کے آئینے سے کچھ کا ذکر کرنا مناسب ہو گا تاکہ گلمت اوندرہ پوئیگہ کی تاریخی حیثیت کا اندازہ لگا سکیں۔ان واقعات کا ہم اپنے آنے والے پوسٹ میں ضرور کریں گے اس کے لیے آپ ہمارے ویب ساءیٹ کو سبسکرائب کریں
اور ہمارے سوشل میڈیا سروسز کو فولو بھی کریں تاکہ بھر وقت آپ کو اس کی اطلاع مل سکیں
میر شاہ غضنفر خان کے دور حکومت(1824 تا 1864) کے واقعات کی تفصیل
ح۔1847 میں یاقند کی بغاوت میں چینیوں کی مدد۔اس کا ذکر کرنل ایف سی شومبرگ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ (7،8)
(2۔ فتح علی شاہ کا سریقول اور تغرمہ کی ہنزہ والوں کی مدد سے فتح۔ ح13-14
۔ ہنزہ و نگر کے ریاستوں کا حکمرانی کی خاطر جنگیں اور لوٹ کسوٹ۔
۔ بڈنگ کے تودے کا گرنا اور سریقول کے معلم شاہداد کی دعا
ہم تیسرے اہم نکتہ” ہنزہ و نگر کے ریاستوں کا حکمرانی کی خاطر جنگیں اور لوٹ کسوٹ” اور چوتھے نکتہ “بڈنگ کے تودے کا گرنا اور سریقول کے معلم شاہداد کی دعا” کا تفصیل سے ذکر کریں گے کیونکہ اس کا اس تاریخی جگہ سے تعلق ہے۔
ہنزہ و نگر کے ریاستوں کا حکمرانی کی خاطر جنگیں اور لوٹ کسوٹ۔
تاریخی مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہنزہ کی ریاست کو فتح کرنا جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا اس لیے صرف نگر کی ریاست نہیں بلکہ گلگت کے حکمرانوں کے علاوہ برصغیر کی برطانوی حکومت کو بھی اس علاقے ضرورت تھی تاکہ اس علاقے کے ذریعے سے چین کی طرف پیش قدمی کر سکیں۔
وادی ہنزہ تاریخی اعتبار سے اور آج بھی اپنی جغرافیائی حیثیت سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس وادی سے قدیم شاہراہ ریشم گزرتی تھی جسے آج شاہراہ قراقرم کہا جاتا ہے آغاز ہوتا ہے۔چین اولین دور سے اس علاقے پر حکمرانی بھی کی ،کھبی یہ علاقہ ایک خود مختار ریاست بھی رہا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیشہ کی طرح یہ علاقہ اہمیت کا حامل ہے اب “پاک چین اقتصادی راہداری” جسے( سی پیک ) کہا جاتا ہے،کے منصوبے کی وجہ سے دنیا کی توجہ اس کی طرف مبذول ہے۔ تاج برتانیہ کے دور میں بھی اس اہمیت کی بنا پر اس ریاست پر ھکمرانی کی خاطر” گلگت کا پہلا سکھ نتھو شاہ نے 1848 میں گلگت اور نگر کی افواج کی مدد سے ہنزہ پر حملہ آور ہوا لیکن شکست ملی۔بلکہ کرنل نتھو شاہ اور گلگت کی کٹھ پتلی راجہ کریم خان دونوں ہنزہ والوں کے ہا تھوں قتل ہو گئے”۔ (ح2)
یہی نہیں بلکہ 1865 میں نگر کے ساتھ اتحاد کرکے دوسری بار کوشش کی لیکن ناکام ہو گئے۔(ح2) تاج برطانیہ اور برصغیر پر ان کی حکومت کی کارستانیاں ہے کی انہوں نے برصغیر سمیت دوسرے علاقوں میں لوگوں کے درمیان لڑائیاں اور چپخلش پیدا کر کے کئی صدیوں تک ان علاقوں پر اپنی حکومت قائم کی۔ ان حالات و واقعات کا اثر کافی عرصہ تک نگر اور ہنزہ کے لوگوں میں رہا اور کئی سالوں تک دونوں ہمسائے آپس میں لڑائیوں میں مصروف رہیں اور وقتا فوقتا نگر کے افواج یا قزاق ان علاقوں پر حملے کرتے گئے۔
آخر کار” 1869 میں میر شاہ غضنفر کے جانشین میر غزن خان اول کے عہد “میں ہنزہ پر حملے ختم ہوۓ۔ “نیز یاد رہے کہ میر شاہ غضنفر کے دور میں نگر عارضی طور پر ہنزہ کا اطاعت گزار رہا
ہے۔ (ح3)“
:بنجر زمینوں کی آبادکاری کے منصوبے
میرشاہ غضنفر علی خان کے دور حکومت میں نگر کے لوگ اکثر گوجال کے علاقوں میں بالخصوص ششکٹ اور گلمت پر حملے کرتے تھے البتہ ششکٹ کی آبادی اس وقت نہیں تھی لیکن ان حملوں کے اثرات میر محمد نظیم خان (کے۔سی۔آئی ۔اس ) 1892 تا 1938 عیسوی ،کے دور حکومت تک رہے۔
“انہوں نے اپنے عہد میں ہنزہ کے حدود میں واقع غیر آباد جگہوں کو آباد کروایا اور نہ صرف ہنزہ کے حدود میں آباد کاری کی طرف توجہ دی بلکہ حدود ہنزہ سے باہر گلگت سب ڈویژن میں رحیم آباد اور اوشکنداس میں اپنی رعایا کو بسالیا۔ہنزہ میں حسن آباد ،مرتضیٰ آباد پائین،خان آباد ،حسین آباد ،عطاآباد، نظیم آباد (ششکٹ) ،خیر آباد ،سست بالا(جسے آج بھی نظیم آباد کہتے ہیں)،کرمن،اسپنج اور شتمرگ وغیرہ ان کے عہد کی آباد کاریاں ہیں۔” (ح 15)
میر محمد نظیم خان نے کوہل نکال کر ششکٹ کو آباد کروایا اس کے نام کی نسبت سے نظیم آباد رکھا گیا تھا بعد میں یہ نام تبدیل ہو کر ششکٹ رہ گیا۔اس کی تاریخ کا ہم نے اپنے پہلے پوسٹ میں بھی کیا ہے۔ان حملوں سے بچنے کی خاطر مقامی لوگ بلند اور ڈھلوان جگہوں پر اپنی تحفظ کی خاطر رہائش پزیر ہوتے تھے۔ گلمت اوندرہ قلعہ بھی اس تسلسل کی ایک کڑھی ہے ان ادوار میں جغرافیائی حالات سے مقامی حکمران اور ان کے رعایا مجبور ہو کر اس بلند مقام پر رہائیش اختیار کیا اور یہ اس تاریخی جگہ کی حقیقت ہے۔
گاؤں ششکٹ کی مثال ہے جہاں گلمت کے لوگ آکے واپس اس خوف سے گلمت گئے کی نگر کے حملہ آور ہمیں لوٹیں گے ان خاندانوں میں میرے اپنے آباواجداد بھی شامل ہیں جن کے ہاتھ کے لگائے ہوے درخت آج بھی
ششکٹ میں موجود ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہمارے آباؤ اجداد یا دوسرے لوگ جو ششکٹ سے گلمت دوبارہ منتقل ہوئے وہ اس لیے منتقل ہوئے کہ ان کے پاس سامان حرب یعنی ہتھیارکی کمی تھی بلکہ میسر ہی نہیں تھی۔وہ اپنی دفاع دشمن سے نہیں کر سکتے تھے۔ جب کچھ سالوں بعد حالات بہتر ہوئے تو دوبارا گلمت سمیت سنٹرل ہنزہ سے لوگوں کو راجا میر نظیم خان اور بعد میں میر جمال خان کے دور میں لا کر آباد کیا۔اس طرح آج گاؤں ششکٹ (نظیم آباد) میں ہنزہ کے تمام قبائلوں سمیت سنٹرل ایشیا کے تاجک قبائل بھی آباد ہیں۔
وخی تاجک قبائل میں بالخصوص میرے آباؤ اجداد ہریکتار خاندان کے افراد بھی آباد ہیں ان کے علاوہ دوسرے قبائل بھی جن کا ذکر اس مراسلہ میں ممکن نہیں آباد ہیں۔
غرض اس دور کی طرح سائینس اور ٹکنالوجی کی کمی تھی۔بڑی مشکل سے اس دور کے راجہ کے پاس سامان حرب موجود ہوتا تھا جو صرف اور صرف راجا یا میر کے باڑی گارڈ یا حفاظتی دستہ کے پاس ہوا کرتا تھا تاکہ مشکل وقتوں ان کی حفاظت کر سکیں۔
اس دور میں لوہے کی عدم دستیابی کی وجہ سے اکژ لوگ لکڑی سے اوزار بنایا کرتے تھے وہ بھی اگر کوئی ہنر مند فرد ہو تو وہ تیار کرتا تھا یا دوسروں کے لیے معاوضہ لے کر تیا ر کرتا تھا جو کہ کافی مشقت طلب کام تھا۔ لوگ بڑی مشکل سے کاشت کاری کے اوزار بناتے تھے وہ بھی گاؤں سے دور پہاڑوں یا چراگاہوں پر جا کر کئی دنوں باد مضبوظ لکڑی لایا کرتے تھے جو کی کئی سالوں تک استعمال کے قابل ہوتا تھا۔ اس کی ایک بہترین مثال ششکٹ گاؤں کے آباد کاری کے لیے نکالے گئے کوہل جو بالتنگ بر سے نکالا ہے ہمارے بزرگوں نے لکڑی کے اوزار اور مال مویشی کے سینگوں سے کام کر ک نکالا ہے اس کا ذکر گاؤں کے تمام بزرگ بھی کرتے ہیں جو کہ قابل ستائش ہیں۔
:بڈنگ کے تودے کا گرنا اور سریقول کے معلم شاہداد کی دعا
روایت( الف)
“روایت کرتے ہیں کہ میرشاہ غضنفر علی خان کے عہد امارت(1824 تا 1864) کے دوران بڈنگ جسے سرٹ (عطاآباد)کہا جاتا ہے ،کے مقام پر اچانک زمین کا ایک تودہ اوپر سے دریائے ہنزہ میں گرنے سے دریا کا پانی رک گیا تھا اور آٹھ ماہ تک دریا کے رکنے سے دریا کے آس پاس آبادیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔دریائے ہنزہ اس جگہ سے اوپر گلمت تا پھسو ایک بہت بڑی جھیل کی شکل اختیار کر گئی حتٰی کہ خیبر گاؤں تک اس کا اثر پڑا اور یوں بہت سی زمینیں زیر آب آگئیں۔اتفاق کہ بات ہے کہ اس دوران سریقول کے (اسماعیلی )معلموں میں سے ایک معلم خواجہ شاہداد گوجال کے لوگوں میں اسماعیلی دعوت و تبلیغ کے خاطر آۓ ہوۓ تھے۔چنانچہ دریا کا اتنے عرصے تک تباہ کاریاں ہو رہی تھیں اس سے بچنے کے لیے اب سوائے اللہ تعالیٰ کےحضور دعا و فریاد کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔اس لیے یہاں کے لوگوں نے داعی موصوف سے درخواست کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس تباہ کاری سے بچانے کے لیے دعا کریں۔کیونکہ پانی اب گلمت و پھسو کی آبادیوں میں گھس گیا تھا۔چنانچہ اس آفت ناگہانی کو دیکھتے ہوئے اس بزرگ معلم نے ایک تعویز کے ساتھ مٹھی بھر مٹی پر دم کرکے دے دیا تاکہ انہیں اس جگہ گرا دیا جائے جس جگہ تودہ گرنے سے پانی رک گیا تھا۔حکم خدا سے اس تودہ میں شگاف پڑ گیا اور پانی کا ذخیرہ بتدریج خارج ہونے لگا اور پھر ہوتے ہوتے ایک سیلاب کی شکل اختیار کر گیا اور ذخیرہ پانی کے بہنے سے راستے کی آبادیاں مثلا گنش،علی آباد بہنا شروع ہوئیں اور کافی زمینیں بہہ گئیں۔کہتے ہیں کہ اس سے پہلے پھسو کی آبادی زیادہ تھی لیکن اس سیلاب نے تمام زمینوں کو بہا لے گیا اور پھسو کی موجودہ آبادی رہ گئی۔اب تک دریا کے بیچ میں ایک ٹیلا نظر آتا ہے”۔ (ح4)
اس کتاب کے مطابق میر غضنفر علی خان کی وفات کی تاریخ 1864 وفات درج ہے۔ (ح4)
روایت (ب)
دوسری ایک روایت کے مطابق “معلم بزرگ نے وہ تعویز اور مٹھی بھر مٹی ایک شخص کو دیدیا جو گلمت کے مقام پرپلپل (پل پل) کے مقام پر دریا کے پار گیا لیکن پانی کی زیادتی اورجھیل کی وجہ سے سرٹ مو جودہ نام عطاآباد کے اس حصہ تک نہ پہنچ سکا جہاں ان چیزوں کو پھینکنا تھا ۔اس شخص نے گلمت کے سسپنشن برج کے پاس پھینک دیا ۔ کچھ ساعتوں میں پہاڑ سے سلائیڈنگ ہو گئی اور جھیل کے پانی میں لہریں پیدا ہو گئیں ان لہروں کے اثر سے پانی پہاڑی تودہ جو سرٹ کے جگہ میں گرا تھا کٹاؤ شروع ہوا اور آہستہ آہستہ جھیل کا پانی خارج ہونا شروع ہوا یوں جھیل کا پانی مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
جب یہ جھیل بنی تو مقامی لوگ اپنی اراضیات کو چھوڑ کر اپنی مال مویشی اور دیگر ضروریات زندگی سمیت بلند مقامات پر گئے جن میں موجودہ کمرس،ادفیر جیسے جگہوں پر گئے۔ اب یہاں یہ بات واضح ہے کہ صرف مقامی افراد نہیں بلکہ اس دور کے راجہ یا میر بھی اپنی اہل و عیال سمیت بلند مقام جس کو آج ہم اوندرہ کہتے ہیں منتقل ہوگئے۔ یعنی صرف ان ادوار میں ہونے والی لڑائی جگڑوں کی وجہ سے لوگ منتقل نہیں ہوۓبلکہ
تاریخ کے مطابق میرشاہ غضنفر علی خان کے عہد امارت(1824 تا 1864) میں یہ یہ بڈنگ کاجو واقعہ پیش آیا یہ ضروری امر ہے کی اس وجہ سے میر موصوف بھی اس مقام پر رہائش اختیار کی ہو۔ان حالات سے ہم اس بلند مقام اوندرہ قلعہ کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتیں ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ جھیل سے متاثر ہوۓ گھروں کی تعمیری لکڑیوں کو محفوظ کر کے اوندرہ قلعہ کی تعمیراتی کام کیا گیا تھا اب ان کے صرف باقعات ہیں۔
موجودہ کمرس” ڈیرٹ” کے مقام پر جہاں اب بھی میرے آباؤاجداد مروت شاہ کے کھیت ،گھر اور مویشی خانے سمیت نشانیاں ،جن میں اناج کو محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص طرز کے بنے ہوۓ ہوض،جن کا میرے والد صاحب بھی ذکر کرتے ہیں موجود ہیں۔
جب جھیل مکمل طور پر ختم ہوا مقامی لوگ واپس اپنے اراضیات پر واپس آئے تاکہ دوبارہ تعمیرات یا کاشت کاری کی جائے ۔ان افراد میں میرے آباؤ اجداد دادا مروت شاہ مرحوم بھی اپنے گھر جو گلمت راجہ کے محل کے عقب میں آج بھی واقع ہے واپس آئے۔یہ گھر آج بھی میرے چھوٹے چچا مروت شاہ والد موسیٰ بیگ کے حصہ میں آئی ہے رہائش پزیر ہے۔
میرے آباؤ اجداد کے بیانات کے مطابق جب میرے مرحوم دادا موسیٰ بیگ اور مرحوم نانا جان سخاوت شاہ کے والد محترم مروت شاہ واپس اپنے گھر آئیں تو صرف وہاں دیواروں کے سوا کچھ نہیں تھا یہ حالت صرف میرے دادا جان والوں کا نہیں تھا بلکہ گلمت کے تمام لوگوں کے گھروں کا تھا کچھ کی دیواریں گری تھیں اور کچھ مکمل طور پر جھیل کی وجہ سے تباہ ہو چکے تھے اب ان کو دوبارہ تعمیر کرنا پڑا۔دوبارہ گھر کی تعمیر کے لیے تعمیری لکڑی کا بندوبست نہ ہو سکا تو میرے دادا جان اور نانا جان مرحوم کے والد مروت شاہ مرحوم کے والدہ محترمہ جن کا تعلق غلکین گوجال سے تھا اپنے میکے یعنی اپنے والدین کے گھر غلکین گاؤں امداد مانگنے کے لیے گئیں کہ وہ اپنے بچوں سمیت اس وقت بغیر چھت کے ہیں تو صرف ان کے والدین نے نہیں بلکہ پورے غلکین گاؤں کے لوگوں نے ننگ وناموس کے طور پر اپنی بیٹی کے لیے تعمیراتی لکڑی کی مدد کی ۔ان کے والدین سمیت پورے گاؤں والوں نے آکر میرے پڑدادا مروت شاہ اور ان کے خاندان کے لیے گھر تعمیر کی جو آج بھی (تاریخ 25-2-2021)صحیح حالت میں موجود ہے۔(گھرکی تصویر)
قارئین ! آپ ہمارےان روایات اور بیانات کے حوالے سے میرے والد محترم شکور علی ولد موسیٰ بیگ کے ویڈیو ریکارڈ ہمارے یوٹیوب چینل دی آئی ایم ایس پر دیکھ سکتیں ہیں گزارش ہے کہ وزٹ کریں اور اس طرح کے مفید معلومات کے لیے ہمارے اس چینل کوسبسکرائب بھی کریں تاکہ آپ کو بروقت اطلاع مل سکیں۔ (ویڈیو)
میرے دادا جان اور نانا جان کے بیانات اور میرے والدمحترم کے اب کے بیانات کو مدنظر رکھ کر یہ واضح ہوتی ہے کہ اس وقت کے لوگ دوبارہ اپنے لیے تعمیری کام نہیں کیا بلکہ اس وقت کے میر یا راجا کے لیے رہائش کے لیے مناسب بندوبست کے لیے کام کرنا پڑا بلکہ پانی کے نظر ہونے والے تعمیری لکڑی سے انہوں نے میر موصوف کے لیے اوندرہ قلعہ میں تعمیرات کئے،بلکہ جھیل کے اختتام ہونے کے بعد بھی میر موصوف کے لیے محل تعمیر کی جن کا ذکر روایات کے مطابق پہلے کر چکا ہوں۔
ان دو حوالہ جات سے یہ مصدقہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہنزہ کے دوسرے اسماعیلی حکمران میرشاہ غضنفر علی خان کے دور (1824 تا 1864 میں پیش آیا ہے۔ یاد رہے کی ان کے والد میر سلم خان ثانی (دور حکمرانی 1790 تا 1824ہے ) جنہوں نے سب سے پہلے اس علاقے میں اسماعیلی مذہب قبول کیا تھا اور” پہلی بار اس علاقے میں رسم چراغ روشن میر سلم خان مرحوم”(ح5) کی ادا کی گئی تھی۔
گلمت اوندرہ پوئیگہ کی آج کے دور میں اہمیت
گلمت اوندرہ پوئیگہ کی آج اس لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کی یہ جگہ اب ایک سیاحتی جگہ بن گیا ہے اس کی جدید دور میں اہمیت کو برقرار رکھتے ہوے اس کی دوبارہ تعمیر کی جاۓ گی تاکی اس کی تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ سیاحوں کے لیے ایک صحت افزاہ مقام ہو۔اس سلسلے کی ایک کڑھی اس جگہ پر ان باقعات اور تاریخی چیزوں کی حفاظت کے لیے ایک میوزیم کے تعمیر کرنا ہے جو بہت جلد تعمیر کیا جاۓ گا۔اب گلمت کے مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت اس تاریخی قلعہ جو گلمت کے بلند مقام پر موجود ہے تک پیدل چلنے کا راستہ (ٹریک)بنایا ہے اس ٹریک کا باقائدہ افتتاح حال ہی میں ہوا ہے۔ اس مقام کی صرف تاریخی اہمیت نہیں بلکہ اس جگہ کہ ایک خوبی یہ بھی ہے کی اس جگہ سے ارد گرد کے جگہوں کا مکمل نظارہ کیا جاسکتا ہے۔جن میں شمال کی جانب غلکین گاؤں،پھسو کونز، جنوب کی طرف بالخصوص مشہور جھیل عطاآباد جھیل سمیت ملحقہ گاؤں ششکٹ تا آئین آباد تک نظارہ کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ ششکٹ بالا میں بھی اس طرز کی ایک ٹریک تعمیر کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں بعد میں تفصیل سے ذکر کیا جاۓ گا (تصاویر)
دوسری اہم خوبی یہ کہ اس مقام سے قریبی گاؤں ششکٹ میں بننے والی “لیپرڈ ہل ٹریک ششکٹ” کی بلندی کا ندازہ لگا سکتیں ہیں۔گویا یہ دونوں ٹریک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔یہ دونوں ٹریک سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔یاد رہے کی ” لیپرڈ ہل ٹریک ششکٹ” اور ششکٹ گاؤں کے خاص سیاحتی مقامات کے بارے میں اپنی ایک پوسٹ میں ذکر کر چکا ہوں۔ملاخط ہو۔
حوالہ جات و کتابیات:
“The Karakorum Hunza” page no.31 – (1)
۔ “عہد عتیق ہنزہ” صفحہ نمبر 188
“Where three Empires meet”pp.99-100 ۔ (2)
“Hunza” page no 288
“Tribes of Hindukush” page no.30 ۔ (2)
“Tribes of Hindukush” PP.30-31۔ (3)
“تاریخ عہد عتیق ریاست ہنزہ” صفحہ نمبر 230) (4)
“عہد عتیق ہنزہ” صفحہ نمبر 140-141 (5)
“The Karakorum Hunza” page no.31 – (7)
“The Karakorum Hunza” page no.37-38 ۔ (8)
“Where three empires meet” page no.98-99 ۔ (13)
“Hunza” page 298 -(14)
۔ “تاریخ دعوت اسماعیلیہ شمالی علاقہ جات” صفحہ نمبر 241-240
یہ تمام حوالہ جات و کتابیات کی مکمل تفصیل جناب عبداللہ جان ہنزائی صاحب کی کتاب “تاریخ دعوت اسماعیلیہ شمالی علاقہ جات” میں درج ہے لہٰذا علم دوست قارئین اس کتاب کا مطالعہ کر سکتیں ہیے یا براہ راست ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کر سکتیں ہیں۔شکریہ
I have read your article carefully and I agree with you very much. This has provided a great help for my thesis writing, and I will seriously improve it. However, I don’t know much about a certain place. Can you help me?
thanks I will help and guide you please contact us our official page or email address thanks
I may need your help. I tried many ways but couldn’t solve it, but after reading your article, I think you have a way to help me. I’m looking forward for your reply. Thanks.
Kindly contact with us our official email address theims.media@gmail.com or info@theimsmedia.com.pk
Your point of view caught my eye and was very interesting. Thanks. I have a question for you.
Welcome. Thank you very much. We hope you will always appreciate our efforts and give your valuable feedback.
Your point of view caught my eye and was very interesting. Thanks. I have a question for you.
Thank you for your interest and valuable advice. We hope you will continue to share your insights and feedback as we move forward with our research. Since our articles are based on thorough research and verified facts, the publishing process can take some time. To stay updated, we invite you to subscribe to our blog newsletter, so you’ll receive our latest posts as soon as they’re available. For further information or guidance, feel free to reach out to us via our official email.
theims.media@gmail.com
Thank you!